اسلام کی تعلیمات ہمہ گیر اور آفاقی ہے،جسکے ذریعہ ایک بندہ اپنے معبود حقیقی و مسجود اصلی کے سامنے اپنی عاجزی و بےبسی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے سر تسلیم خم کر دیتا ہے،جو ایک گمشدہ بندے کو اپنے آقا کے دربار میں حاضری کا سبق سکھاتا ہے،نماز اسلام کا اہم ترین رکن اور بنیادی ستون ہے،جو کفر و ایمان کے مابین حد فاصل ہے،جس کی انجام دہی کا ایک خاص مقام ہے،اور وہ جگہ شریعت کی اصطلاح میں مسجد کہلاتی ہے،مسجد درحقیقت پروردگار عالم کا بابرکت گھراور پر عظمت دربار ہے،خیروبرکت کا منبع اور ہدایت کا سرچشمہ ہے،عبادت و بندگی کا مظہر اور اسلام کی نشر و اشاعت کا مرکز ہے،امن و سلامتی کا گہوارہ اور رحمت و برکت کی منزل ہے،اور ملائکہ کا مسکن اور اسلام کی عظیم درسگاہ ہے،یہی وجہ ہے کہ مسجدیں ہر علاقے اور ہر بستی کی وہ بنیادی ضرورت ہے،جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں،اور اس کا کوئی نعم البدل بھی نہیں ،اور اس کا ادب و احترام ہر صاحب ایمان پر لازم و واجب ہے،جس کی حیثیت اور مقام دیگر جگہوں سے بلند و بالاتر ہے،
مسجد کی فضیلت: مسجد اللہ کا گھر ہے، مسجد آسمان والوں کو ایسے ہی چمکتے اور روشن نظر آتی ہے،جس طرح زمین والوں کو آسمان کے ستارے چمکتے نظر آتے ہیں ،( مجمع الزوائد : ۱۹۳۴)جنت کے باغ ہیں،روۓزمین پر عنداللہ سب سے محبوب ترین جگہ ہے،( مسلم باب فضل الجلوس فی مصلاہ :۶۷۱ ) امن و سلامتی کا گہوارہ ہے،مسجدہرمؤمن کا گھر ہے،جماعت کی نماز منفرد کی نماز سے ٢٧ درجہ ثواب مضاعف رکھتی ہے،(بخاری و مسلم، مشکوٰۃ : ١٠٥٢ )
مسجد میں حاضری و پابندی کی فضیلت : جس خوش نصیب اور نیک بخت کو باری تعالی نے نماز کی پابندی اور مسجد میں حاضری کی توفیق عطا فرمائی ہے،وہ بہت ہی سعادت مند ہے،اس لئے کہ اللہ تعالی مسجد میں آنے والے بندے سے اس طرح خوش ہوتے ہیں،جس طرح گمشدہ آدمی کے ملنے سے گھر والے خوش ہوتے ہیں،نیز یہ کہ مسجد میں آنے والے کی اللہ ربّ العزت والجلال میزبانی کرتے ہیں،گویا مسجد میں آنے والا اللہ کا مہمان بن جاتا ہے، ( بخاری :باب فضل من غدا الی المسجد :٦٣١)اللہ تعالی اس بندے سے محبت فرماتے ہیں،اور ملائکہ اس کے معاون و مددگار بن جاتے ہیں،( مسند احمد :٤٩١٤) اور صبح شام مسجد میں حاضر ہونے والا گناہوں اور خطاؤں سے اس طرح منزہ و مبرہ ہو جاتا ہے،جس طرح اس وقت تھا، جب ماں کی پیٹ سے پیدا ہوا ہو،( مسلم :٦٦٦) مسجد میں بیٹھنے والا تین فائدوں میں سے ایک فائدہ ضرور حاصل کرتا ہے،۱, کسی بھائی سے کوئی دینی فائدہ ہو جاتا ہے،٢, یا کوئی حکمت کی بات سننے کو ملتی ہے،٣, یا اللہ کی رحمت مل جاتی ہے،(جس کا ہر مسلمان منتظر رہتا ہے)( مسند احمد :٤٩١٤)
مسجد سے بے التفاتی و بے توجہی کا نقصان۔ مسجد میں نہ آنا نفاق کی علامت ہے،اور یہ کہ نبی علیہ السلام نے جو کہ کائنات میں سب سے بڑھ کر رحیم و بردبار ہے،اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں نہ آنے والوں کے بارے میں یہ ارادہ فرماتے ہیں کہ ان کے گھروں کو جلا دوں،( بخاری : کتاب الجماعت و الامامۃ :٦١٨)ذرا اندازہ لگائیے کہ کتنی بڑی بات ہوگی،اور مسجد میں حاضری کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے، لیکن یہ بات بھی مہتاب نیم شب کی طرح عیاں ہے کہ ابتداۓ آفرینش سے ہی حق و باطل کا تصادم اور ٹکراؤ جاری رہا ہے،ہر زمانے میں دشمنان اسلام ہمیشہ اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں،کبھی تو احکامِ شریعت میں ترمیم اور تبدیلی کر کے،تو کبھی شعائر اسلام کا مذاق اڑایا کر کے،کبھی تو اذانوں پر پابندیاں لگاکر ،تو کبھی مسجدوں کی بے حرمتی کرکے ،ہمارے ملک ہندوستان میں بھی سب سے پہلے بابری مسجد کو ہدف بنایا گیا،اور ناجائز قبضہ کر کے اس کو مندر میں تبدیل کیا گیا ،اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے اویس زمانہ قاری سید صدیق صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اس طرح کہا تھا وہ میر باقی کی تھی جو مسجد جو عہد بابر کی تھی نشانی خدا کا گھر وہ گرا کے ظالم یہ کیسا مندر بنا رہے ہیں ،لیکن پھر بھی جب تک ظالم کے ظلم کی آگ ٹھنڈی نہ ہوجائےتو وہ کچھ نہ کچھ شرانگیزی ضرور کرتا رہتا ہے، ابھی کچھ دن قبل شہر حیدر آباد میں بھی دو مسجدوں کی بے حرمتی کی گئی ،اور ان کو مسمار کردیا گیا،یہ سب ہمارے شامت اعمال کا نتیجہ،اور قرب قیامت کا قرینہ ہے ،ہم سے صرف بابری مسجد نہیں چھینی گئی،بلکہ بابری مسجد تو ہدف اور نشانہ پر ہے،اس کے علاوہ دلی کی جامع مسجد،حیدرآباد کی مکہ مسجد وغیرہ بھی نشانے پر ہے ،دشمن ہماری غیرت و حمیت کو آزما رہا ہے،یکے بعد دیگر مسجدوں پر ناپاک حملے کیے جا رہے ہیں ، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم تو بس نام کے مسلمان رہ گئے ہیں،خود “مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے” ہمارا طرز عمل تو رمضانی مسلمان ہونے کا واضح ثبوت پیش کرتا ہے ،جیسے ہی رمضان آجائے، تو مسجد میں آمدورفت شروع ہوجاتی ہے، قرآن کی تلاوت کا خوشگوار ماحول پیدا ہو جاتا ہے، روزوں کے اہتمام کی خوشبو دار فضا چلنے لگتی ہے،تسبیحات کی پابندی کے دلچسپ مناظر نظر آتے ہیں،غریبوں کی امداد، مسکینوں کی داد رسی، بیماروں کی مزاج پرسی ؛بلکہ ہر اعتبار سے انسانیت نوازی اور خدمت خلق جیسی نمایاں صفات کا ظہور ہوتا ہے،خیر خواہی کے جذبات ابھرنے لگتے ہیں، ہمدردی کے حوصلے پروان چڑھنے لگتے ہیں ،لیکن پھر جوں ہی ہلال عید نظر آ جائے،تو دفعۃ ماحول بدل جاتا ہے،مزاج میں تبدیلی آجاتی ہے،بہار کے بجائے خزاں جیسا ماحول پیدا ہو جاتا ہے ،اور در پردہ چھپے ہوئے سب شروروفتن عود کر آجاتے ہیں ،مسجدوں سے بیگانگی و بے التفاتی نمازوں کی غفلت و لاپرواہی کا ایسا منظر ہوتا ہے ،جو ناقابل بیان ہے،گویا شاعر مشرق علامہ اقبال نے سچ کہا تھا ،
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ،ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اب بھی وقت ہے سدھر جانے کا،مزاجوں کو بدلنے کا ،عادات کا رخ موڑنے کا ، تو اس سلسلے میں سب سے پہلے ہمیں ان حالات میں ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے،اولا تو ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خاموش رہنے کے بجائے جائز اور جمہوری حدود میں رہتے ہوئے اس کے خلاف آواز حق بلند کرے،ثانیا ہم خود اپنے طور پر مسجدوں کو آباد کرنے کی فکر کرنی چاہیے؛ اس لیے کہ جب تک ہماری مسجدیں آباد اور نمازیوں سے پر ہوگی ، تو کسی بھی مائی کا لال میں جرات اور ہمت نہیں کہ وہ اس کے خلاف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکیں، اور اس کے خلاف اپنے ذہن کو دوڑا سکے، لیکن ہمارا حال تو یہ ہوگیا ہے کہ مسجدوں کی کوئی فکر ہے نہ نماز کا شوق؛ لیکن جب مسجدوں پر حملے ہوتے ہیں،اور اس کی بے حرمتی ہوتی ہیں،تو تب کف افسوس ملنے کے سوا کچھ باقی نہیں رہ جاتا،پھر ہائے ہائے کرناکچھ نفع بخش اور سودمند نہیں ہوتا،اس لئے ہمارا اولین ذمہداری ہے کہ ہم خود محلہ واری سطح پر مسجدوں کو آباد کرنے کی فکر کریں،آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئےمسلمان بھائیوں سے ترغیب اور تشویق کی باتیں کرکے انہیں مسجد کا پابند بنائیں، جس طرح مسجدکی تعمیر اور آباد کاری باعثِ سعادت اور اجروثواب کا موجب ہے،بس یوں ہی اس کے برخلاف مسجد ڈھانا ،اور تخریب کاری و ویرانی کے اسباب و ذرائع کو پیدا کرنا بدبختی و حرماں نصیبی ہے،جو سنگین گناہ اور ظلم عظیم ہے،جیساکہ قرآن کریم میں آیا ہے ومن اظلم ممن منع مساجد الله لہذا ہمیں قرآنی پیغام انما یعمر مساجد اللہ من امن بالله واليوم الاخر کا عامل بنتے ہوئے اپنے مومن کامل کا ثبوت دیں ،اور مساجد کی حفاظت کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس کی آبادی کی کوشش کی جائے ،اس کے بے شمار فوائد و ثمرات ہیں،ہر شخص کو شعوری طور پر یہ کوشش کرنا چاہیے کہ وہ جس علاقے میں رہتا ہے،اگر وہاں مسجد نہ ہو تو مسجد کی تعمیر کی فکر کریں ،اور اگر ہو تو اس کی آبادی کی کوشش کرے ، اسی طرح ہر نمازی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی انفرادی و اجتماعی دعاؤں میں مسجد کی آبادی اور علاقے کے لوگوں کے لئے دعا کریں کہ پروردگار عالم ہر مسلمان کو پکا نمازی اور سچا دین دار بنائیں،اور مساجد کےآئمہ و مؤذنین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپکو اذان و نماز تک محدود رکھنے کے بجائے مسجد کی آبادی کی بھی کوشش کرے،اپنے آپ کو اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہ سمجھیں،بلکہ یہ بھی ان کے فریضہ میں داخل ہے،اللہ تعالی توفیق کے عمل نصیب فرمائیں ربي اجعلني مقيم الصلاه ومن ذريتي ربنا وتقبل دعاء امين

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *