گذشتہ سال رمضان المبارک کا مہینہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی زد میں رہا اور امسال کا حال بھی ویسا ہی رہا لیکن فرق صرف اتنا تھا کہ گذشتہ سال لوگ کورونا سے کم پولیس سے زیادہ خوفزدہ رہا کرتے تھے مگر امسال پولیس سے کم کورونا وائرس سے زیادہ خوفزدہ تھے موت کا سلسلہ جاری تھا روزانہ ارتھیاں اور جنازے اٹھ رہے تھے لاک ڈاؤن بھی تھا اور ہے لیکن الگ الگ انداز سے دکانیں کھل رہی تھیں اور اب بھی کھل رہی ہیں خریداری ہو رہی تھی اور اب بھی ہورہی ہے اکثر و بیشتر مختلف مقامات پر بھیڑ بھاڑ بھی ہوتی رہتی تھی اور اب بھی ہوتی ہے رمضان میں نئے نئے کپڑوں کی جس قدر خریداری ہو رہی تھی تو کفن کی بھی اسی طرح خریداری ہو رہی تھی شروع رمضان سے آخر رمضان تک موت کا سلسلہ بھی جاری رہا اور یہ حال ہوگیاتھا کہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانے پر جہاں سب کچھ نظر آتا تھا وہیں ارتھی و جنازے بھی ضرور دیکھنے کو ملتے تھے ایک طرف حکومت آکسیجن اور ویکسین سے متعلق کہتی ہے کہ کمی نہیں ہے تو دوسری طرف آج بھی وقت پر نہ آکسیجن میسر ہوتا ہے اور نہ ہی ویکسین آخر حکومت کب ہوش میں آئے گی اور کب صحیح فیصلہ لے گی تاکہ موت کا سلسلہ پوری طرح تھم سکے رمضان کے آخری مراحل میں ہے گائیڈ لائن جاری کردیا گیا کہ مساجد میں پانچ آدمی ہی نماز ادا کریں گے جب پانچ ریاستوں میں الیکشن ہورہا تھا تب کیوں نہیں ہوش کے ناخن لیا گیا جب ریلیاں ہورہی تھیں تب انسانیت کو سسکنے اور دم تورنے سے بچانے کے لئے کیوں نہیں قدم اٹھایا گیا، کمبھ کے نام پر لاکھوں کی بھیڑ ہریدوار میں جب اشنان کررہی تھی تب پابندی کیوں نہیں لگایا گیا اس طرح سے دوہرے معیار کو اپنا کر مرکزی حکومت نے ملک کی عوام کو موت کے منہ میں جھونکا ہے اور اسی دوہرے معیار اختیار کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ شمشان میں میں بھی لاشوں کی لائن لگی ،، بی جے پی حکومت ہر مسلے پر سیاست کرتی ہے یہاں تک کہ کورونا وائرس جیسی جان لیوا بیماری کی روک تھام میں بھی ناانصافیوں کا سہارا لیتی ہے جس کی سزا آج پورا ملک بھگت رہا ہے جبکہ مساجد میں آج بھی کورونا وائرس کے خاتمے کی دعاؤں کا اہتمام ہوتاہے اور رمضان المبارک کے مہینے میں مسلمان سحری اور افطار کے وقت بھی عالم انسانیت کی بحالی اور خوشحالی اور مذکورہ وبا کے خاتمے کی دعا کرتا تھا گلیوں میں گھوم گھوم کر کسی مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لئے نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے عوام کی بھلائی اور کورونا سے نجات پانے کے لئے اذان کے کلمات بلند کرتا تھا چھوٹے چھوٹے بچے گلیوں میں گھوم گھوم کر دعائیں پڑھا کرتے تھے ہاتھوں اور نظروں کو آسمان کی جانب اٹھا کر رب العالمین سے فریاد کیا کرتے تھے تاکہ موت کا سلسلہ تھم جائے، بیماروں کو شفا مل جائے، ڈری سہمی ہوئی انسانیت کو سکون میسر ہوجائے، سسکتی ہوئی انسانیت کو قرار حاصل ہو جائے یہ بات حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ ناانصافی کا انجام بہت بھیانک ہوتا ہے اور قدرت کے وہاں دیر ہوتی ہے مگر اندھیر نہیں ہوتی اس لیے اندھیر نگری چوپٹ راج کا راستہ ترک کرنا ہوگا اور مساجد میں پانچ آدمیوں کی پابندی یہ کورونا سے بچنے کا حل نہیں ہے اور اس کے لئے علماء کرام کو بھی آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے اور وقت کی حکومت کو صحیح مشورہ دینے کی ضرورت ہے اور اس کے علاوہ ڈنکے کی چوٹ پر علماء کرام کو چیلنج کرنا چاہیے کہ حکومت اپنے اہلکاروں کو تعینات کرکے معلوم کرلے کہ مساجد میں مسلمان کورونا جیسی وبا کے خاتمے کی دعا کرتاہے کہ نہیں،، پورا رمضان مسلمانوں نے کے لئے تہوار ہوتاہے اور روزہ رکھ کر شام کو دسترخوان سجانے کے لئے خریداری کرتاہے مگر امسال دسترخوان سجانے سے زیادہ عصر سے مغرب تک کورونا کے خاتمے کی دعا کرنا مسلمانوں نے ضروری سمجھا اور امسال رمضان کے مہینے میں مسلمانوں نے تو انسانیت کے اہم ترین فرائض کو انجام دیا ہے برادران وطن کی لاشوں کو اٹھایا ہے، شمشان گھاٹ پہنچایا ہے، آخری رسومات ادا کیاہے جو کہ فرقہ پرستوں اور ناانصافی کرنے والوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے کم از کم اب تو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ، پڑوسیوں کو گلے لگانا چاہیے ایک دوسرے کو برادران وطن کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے اور ایک آواز ہوکر پوری دنیا کو پیغام دینا چاہیے کہ بیماری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، خوف و دہشت اور مشکلات کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اور بیماروں کے ساتھ گھنا نے کی تو مذہب اسلام اجازت ہی نہیں دیتا ہے بلکہ بیماروں کی عیادت کو مذہب اسلام نے عبادت کا حصّہ بنایا ہے اور بتاتا ہے اسی لئے مسلمان ہر ایک کے دکھ سکھ میں شریک ہوتاہے ایک ماہ روزہ رکھنے کے بعد عیدالفطر کا دن آتا ہے اور اس دن مسلمانوں اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہو کر شکرانہ ادا کرتا ہے کہ ائے پروردگار تو نے رمضان جیسا مبارک مہینہ عطا کیا روزہ رکھنے کی سعادت سے مالامال کیا تونے ہمیں متقی و پرہیزگار بننے کا موقع فراہم کیا ، تونے ہمیں ذکر و اذکار کی طرف مائل کیا،، مسلمانوں کے بڑے ارمان تھے کہ عید گاہ میں جمع ہو کر اس عالمی وبا کے خاتمے کی جہاں دعا کریں گے تو وہیں باالخصوص اپنے وطن عزیز کے لئے تعمیر و ترقی کے لئے، خوشحالی کے لئے، پاک و صاف ماحول کے قیام کے لئے، پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کے لئے ہرایک کی صحت و تندرستی کے لئے آنکھوں سے آنسو برساتے ہوئے روئیں گے گڑ گڑا ئیں گے سربسجود ہو کر اجتماعی انداز میں یہ کہیں گے کہ ائے پروردگار رحم و کرم فرما آج اجرت ملنے کا دن ہے، آج تونے ہم کو اپنا مہمان بنایا ہے تو ہماری دعاؤں کو قبول کرلے بڑے بڑے ڈاکٹر سہمے ہوئے ہیں، بڑے بڑے سورماؤں کے جسم تھرتھراہٹ کے شکار ہیں مولیٰ ہمارے اٹھے ہوئے ہاتھوں کی لاج رکھ لے اور پورے ہندوستان سے کورونا کا خاتمہ کردے لیکن افسوس صد افسوس کہ سارے ارمان خاک میں مل گئے عیدگاہ میں صرف پانچ آدمی عیدالفطر کی نماز ادا کرسکے چنانچہ سال گذشتہ جیسی امسال کی بھی عید رہی اب امسال بھی دل سے یہی صدا آتی ہے کہ یا اللہ اب ایسی عید نہ آئے بلکہ سلام و مصافحہ کرنے والی عید آئے، گلے ملنے ملانے والی عید آئے، مبارکباد پیش کرنے والی عید آئے ایک ماہ روزہ رکھنے کے بعد جم غفیر کی شکل میں تیرا شکرانہ ادا کرنے والی عید آئے،، دوسری بات بہت قابل غور ہے کہا جاتا ہے کہ کورونا کو شکست دینا ہے یعنی ہر حال میں کورونا سے جنگ کرنا ہے جبکہ غور وفکر کرنا چاہیے کہ ہم کورونا کو عالمی وبا کہتے ہیں، آفات سماوی کہتے ہیں، عذاب الٰہی کہتے ہیں تو پھر ہم جنگ کیسے کرسکتے ہیں اس لئے کہ عذاب الٰہی سے جنگ اللہ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے اور کوئی ہستی کوئی طاقت ایسی ہے ہی نہیں جو اللہ کو چیلنج کرسکے کیونکہ وہی مالک الملک ہے لہذا ریلیوں میں نہیں، ٹی وی چینلوں پر نہیں، فیس بک اور واٹس ایپ سمیت دیگر سوشل میڈیا پر نہیں بلکہ بارگاہ خداوندی میں بارگاہ رسالت کا واسطہ دے کر رونا ہوگا تب عذاب ٹلے گا اور نجات حاصل ہوگی اور موجودہ لاک ڈاؤن سے کوئی فائدہ نہیں اور دنیا یہ خوب اچھی طرح سمجھ لے کہ زمین پر قرآن کی مخالفت ہو گی اور رسول کائنات کی توہین ہوگی تو ہرگز سکون نہیں مل سکتا کیونکہ قرآن کی مخالفت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اللہ کو گوارا نہیں ہے –