ملک کوآزاہو ئے 70سال سے زائد کاعرصہ ہوچکاہے،ملک کی آزادی کا مقصد کیا تھا؟ کیوں مسلمانوں نے آگے بڑھکر آزادی کا پرچم تھاما،اور پھر برادران وطن کو ساتھ لیکر ملک کوآزاد کرانے کی ایک ایک طویل تحریک شروع کی جسکے نتیجے میں بلآخر ہمارا یہ ملک آزاد ہوا،غلامی سے نجات ملی، اس آزادی کےلئے یہاں کے مسلمانوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا،ملک کے آزاد ہونے اور اسے انگریز بہادر کے چنگل سے چھیننے کے بعد ہمیں یہ امید تھی کہ اب اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ عدل وانصاف، کیاجائے گا،مذہبی وبنیادی حقوق ہمیں فراہم کئے جائیں گے،اور یہ کہ اس ملک میں امن وسلامتی اور بھائی چارے کی فضاء قائم رہے گی،لیکن ایسا ہر گز نہیں ہوا،آزادی کے بعد سے مسلسل اب مسلمانوں کو اسکی قیمت چکانی پڑرہی ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس ملک میں کب تک ہمیں بلی کا بکرا بنایا جاتا رہےگا؟ اور اسکی روک تھام کےلئے ہمارے پاس کیا منصوبہ بندی اور حکمت عملی ہے؟ آزادی کے 70 سال کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کبھی ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے،کبھی جھوٹے الزام تراشیوں کے ذریعے،اور کبھی کچھ دوسرے حیلے بہانے سے مسلمانوں کو مٹانے اور ختم کرنے کی کوشش کی گئی،ملک کی ایجنسیوں اور اداروں کے غلط استعمال کرکے مسلمانوں کو بدنام کیا گیا،اور ظلم وبربریت کا طوفان کھڑا کیاگیا، آزادی کے بعد شاید ملک کی تاریخ میں ایسادن کبھی نہیں آیا جب یہاں کے چین وسکون کی فضاء میں سانس لئے ہوں،ہردن کوئی نہ کوئی سانحہ ہمارے ساتھ ضرور پیش آیا،یا اس سانحہ کو ہمارے سر تھوپنے کی کوشش نہ کی گئی ہو،مجھے ایسا لگتا ہے کہ آزادی کے وقت ہی اس ملک کو “دوسرا اسپین”بنانے کی تیاری اور اسکی منصوبہ بندی کرلی گئی تھی،اسکا روڈ میاپ تیار کرلیا گیاتھا،جسکو رفتہ رفتہ عملی جامہ پہنایا جارہاہے، اسوقت ملک کے جو حالات ہیں یہ اسی فلم کی منظر کشی کررہےہیں،گذشتہ 6 سالوں میں جسطرح جمہوریت کی دھجیاں اڑائی گئی اوراسکی پامالی کی گئ،ظلم وبربریت کاننگا ناچ ناچا گیا،نفرت وتعصب کا زہر شہر شہر،گاؤں گاؤں ،اور گلی گلی میں گھولا گیا یہ سب اسی منصوبہ بندی اور پلانننگ کا حصہ ہے،گذشتہ 6سال کی کارکردگی پراگرآپ غور کرلیں تو یہ بات بہت آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ گھرواپسی، لوجہاد،ماب لنچنگ،رام مندر،میڈیائی دہشت گردی وغیرہ یہ سب اسی سلسلے کی کڑی ہے،اور اب تو نفرت و تعصب کا دائرہ بہت وسیع ہوتا جارہا ہے،ظلم وبربریت کا یہ سلسلہ اب سلاخوں اور ملک کی جیلوں تک پہونچ چکاہے،مسلم قیدیوں کے ساتھ مذہبی تعصب پرستی کی فضاء بن چکی ہے،جسکے ذریعہ ذہنی وجسمانی ٹار چر کیاجارہا ہے،ایک مقامی اخبار کے مطابق دہلی فسادات کے سلسلے میں ماخوذ اور تہاڑ جیل میں قید اسٹوڈینٹ لیڈر،گل افشاں فاطمہ نے دہلی کی ایک عدالت میں اپنی روداد رنج وغم ان الفاظ میں بیان کی کہ “جیل عہدے داروں کی جانب سے مجھے ذہنی تکلیف پہونچائی جارہی ہے،مجھ پر فرقہ وارانہ تعصب پر مبنی فقرے کسے جارہے ہیں،اور مجھے ہراساں کیا جارہا ہے،ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے گل افشاں نے جج کو یہ بھی بتایا کہ جیل کااسٹاف میرے ساتھ کھلا تعصب برت رہاہے،جب سے مجھے یہاں لایاگیا ہے میرے ساتھ مسلسل نفرت وتعصب کامعاملہ کیاجارہا ہے،مجھے جیل میں پریشانی ہورہی ہے،مجھے “پڑھے لکھے دہشت گرد” کہتے ہیں اور فرقہ وارانہ نوعیت کے گندے جملے کسے جاتے ہیں،میں یہاں ذہنی طور پرہراسانی کا سامنا کررہی ہوں،اگر میں نے خود کو کوئی نقصان پہونچا لیا تو اسکے ذمہ دار صرف جیل کے حکام ہوں گے”
یہ ہے گل افشاں کی جیل کی سرگذشت جو انھوں نے عدالت کو بتایا،اسی سال فروری میں ہوئے مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں تہاڑ جیل میں رکھاگیاہے،اور یہ روداد اسی تہاڑ جیل کی ہے،دہلی فساد کے سلسلے میں جتنے لوگوں کو گرفتار کیاگیاہے ان تمام لوگوں پر UAPA کا کالا قانون لگایا گیاہے،گل افشاں پر بھی یہ قانون لگایا گیاہے،معروف صحافی ودود ساجد کے مطابق دہلی فساد سے متعلق کم ازکم 15افراد تہاڑ جیل کی الگ الگ کمروں میں بند ہیں،اور انکے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیاجارہا ہے،آج نہ کوئی ‘اپنا اخبار’ انکی روداد رنج وغم شائع کررہاہے اور نہ ہی یہ پرجوش ٹولیاں کہیں نظر آرہی ہیں،ایسا لگتاہے کہ ان پریشان حال افراد کو ظالموں کے رحم وکرم پرچھوڑ دیاگیاہے”
گل افشاں کی یہ تکلیف دہ روداد پہلی نہیں ہے،حقیقت یہ ہے کہ اسطرح کا رویہ برسوں سے مسلمانوں کے ساتھ ہورہاہے،تہاڑ جیل میں اسطرح کے مظالم کوئی نئی بات نہیں ہے،2019 میں جیل سپرنٹینڈنٹ راجیش چوہان نے ایک مسلم نوجوان نبیر کے جسم پر لوہے کی آہنی اورگرم سلاخ سے نہ صرف یہ کہ اوم کا نشان بنوایا تھا،بلکہ اسے تبدیلی مذہب کےلئے جبر بھی کیاتھا،اس نوجوان کے خلاف 2016 میں مکوکا اورآرمس ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے گئے تھے،بعدازاں اسکی گرفتاری عمل میں آئی تھی اوراسے تہاڑ جیل منتقل کردیاگیا تھا،نبیر نے اپنے ارکانِ خاندان کو جیل سپرنٹنڈنٹ کی بربریت سے واقف کراتے ہوئے بتایا تھاکہ نوراتری کے موقع پر اسے دودن تک بھوکا پیاسا رکھاگیا،اور اس سے یہ کہاگیا کہ اس نے نوراتری کا ورت رکھ لیاہے،اوراب وہ ہندو مذہب قبول کرچکاہے،جسکے بعد وہ وکیل کے ذریعے عدالت سے رجوع ہوئے اور جیل حکام کے خلاف شکایت درج کروائی تھی،مجسٹریٹ ریچھا پریہار نے جیل حکام کو اس پورے معاملے کی جانچ کروانے اور ساتھی قیدیوں کے بیانات قلمبند کرنے کے ساتھ ساتھ نبیر کا طبی معائنہ کروانے کی ہدایت دی تھی،اسکے علاوہ فاضل مجسٹریٹ نے زیر دریافت قیدی کی حفاظت کویقینی بنانے اور راست یا بالواسطہ جیل حکام کوہٹانے کی بھی ہدایت دی تھی،اس سے قبل میوات سے تعلق رکھنے والے عبدالسبحان نامی نوجوان جو دہشت گردی کے الزامات کے تحت جیل میں قید تھے،اوراسی طرح شہاب الدین نامی نوجوان نے اپنے ارکانِ خاندان کو خط لکھکر جیل میں کئے جانے والے انکے ساتھ امتیازی سلوک اورظلم وبربریت سے واقف کرایاتھا،انھوں نے یہ بتایا تھاکہ جیل میں انتہائی بے رحمی اور بےدردی سے زدو کوب کیا جاتاہے،جس سے ہاتھوں،پیروں کا ٹوٹنا اور آنکھوں کا پھوٹ جانا کوئی نئی بات نہیں ہے اگر اس تعلق سے شکایت کی جاتی ہے تو غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے زدو کوبی کے معاملے کو قیدیوں کا آپسی جھگڑا قرار دیا جاتاہے یا پھر قیدیوں پر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے کا الزام لگایا جاتاہے،
جیل میں محروس قیدی دراصل عدالتی تحویل میں ہوتے ہیں،اور قانون کسی کوبھی زدوکوب کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی اسکی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے،متعصب عہدے دار اور جیل حکام کی جانب سے ایک خاص مذہب کے لوگوں کواپنی تسکین کی خاطر ذہنی ٹارچر کرنا اور امتیازی سلوک کرنا یہ بہر حال ایک لمبی پلاننگ کا حصہ ہے،ابھی کچھ دنوں قبل ڈاکٹر کفیل خان کے تعلق سے بھی یہ خبر آئی تھی کہ انھیں کئی دنوں تک بغیر کھانا،پانی کے بھوکا رکھاگیاتھا،جیل میں مسلمانوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا جاتا اسکو جاننے کےلئے”گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے”نامی کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے جس سے یہ معلوم ہوگا کہ کس کس طرح سے وہاں مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیاجاتا ہے،گل افشاں کو یواے پی اے تحت گرفتار کیاگیاہے،جو انتہائی سخت اور کالا قانون ہے،اور اس قانون کے ذریعے ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا جارہاہے،اس قانون کو 1967 میں علیحدگی پسند تنظیموں سے نپٹنے کےلئے وضع کیا گیاتھا،اس قانون کو ٹاڈا اور پوٹا جیسے قوانین کا پیشرو مانا جاتاہے،یہ دونوں قوانین بھی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے نپٹنے کےلئے بنائے گئے تھے،لیکن حقوق انسانی کی تنظیموں نے دونوں کو بہت سخت اور سیاہ قانون قرار دیاتھا،جسے بعد میں حکومت نے واپس لے لیاتھا،
یواے پی اے میں وقتا فوقتا ہونے والی ترمیموں نے اس قانون کو اور زیادہ سخت بنادیا ہے،2019 میں ہونے والی آخری ترمیم کی رو سے اب کسی بھی انفرادی شخص کو دہشت گرد قرار دیاجاسکتاہے،اس سے قبل تنظیموں کو ہی دہشتگرد قرار دیا جاتا تھا،اس قانون کے تحت مقدمات خصوصی عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں،اس کا استعمال روایتی قسم کی دہشت گردی یادہشت گردانہ سرگرمیوں کے بجائے دوسرے واقعات میں ہوتارہاہے،یہ قانون ایک عرصے سے رضاکاروں،اسٹوڈینٹ لیڈروں اور صحافیوں کے خلاف استعمال کیاجاتا رہاہے،اس قانون کے تحت ملزموں کو شاذ ونادر ہی ضمانت ملتی ہے،اس ضمن میں صرف جامعہ ملیہ کی طالبہ صفورا زرگر کو ضمانت ملی ہے،وہ بھی دہلی ہائی کورٹ نے انسانی بنیادوں پراسے ضمانت دی ہے،اس قانون کے تحت ملزم پیشگی ضمانت کا مطالبہ نہیں کرسکتا،اور تفتیش کی مدت 90دن سے بڑھاکر 180دن کی جاسکتی ہے،یعنی ملزم کو کم ازکم 180 دن تو ضمانت ملنے کا کوئی امکان نہیں،اس قانون کے تحت ملزم کو 15دن کے بجائے 30دن کےلئے پولس کسٹڈی میں دیاجاسکتاہے۔
یہ ہے اس قانون کی حقیقت اور اسکے تحت ہونے والی کارکردگی، کیاآپ کو نہیں لگتا کہ یہ سب ملک سے مسلمانوں کی زمین تنگ کرنے کےلئے کیاجارہاہے اور یہ سلسلہ آنے والے دنوں میں رک جائے اسکا امکان نہیں شاید یہی بات ڈاکٹر کلیم عاجز مرحوم نے کہی ہے کہ
جدا جب تک تری زلفوں سے پیچ و خم نہیں ہوں گے
ستم دنیا میں بڑھتے ہی رہیں گے کم نہیں ہوں گے
اگر بڑھتا رہا یوں ہی یہ سودائے ستم گاری
تمہیں رسوا سر بازار ہوں گے ہم نہیں ہوں گے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *