جنگ خندق کے موقع پر حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے شکم انور پر پتھر بندھا دیکھا تو بیچین ہو گئے صبر کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے گھر کے لئے روانہ ہوگئے گھر پہنچ کر اپنی بیوی سے کہا کہ کیا گھر میں کچھ ہے تا کہ ہم آقا صل اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ پکائیں اور انہیں کھلائیں؟ بیوی نے جواب دیا تھوڑا سا جو ہے اور یہ بکری کا چھوٹا سا بچہ ہے اسے ذبح کرلیتے ہیں آپ حضور صل اللہ علیہ وسلم کو بلا لائیے مگر چونکہ وہاں لشکر بہت زیادہ ہے اس لیے آقا سے تنہائی میں کہئیے گا کہ وہ اپنے ہمراہ کچھ کم ہی آدمیوں کو لائیں- جابر نے کہا کہ اچھا تو لاؤ میں بکری کے بچے کو ذبح کرتا ہوں اور تم کھانا پکاؤ میں حضور کو بلالاتا ہوں،، چنانچہ حضرت جابر بارگاہ نبی میں پہنچے اور کان میں عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ میرے گھر تشریف لے چلیں اور اپنے ساتھ کچھ تھوڑے سے آدمیوں کو لیلیں حضور نے سارے لشکر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا چلو میرے ساتھ چلو جابر نے کھانا پکوایا ہے ادھر جابر حیران ہوئے کہ کھانا کم ہے آدمی زیادہ ہیں لیکن دل سے یہ صدا بھی ارہی تھی کہ نبی کی دعوت میں نے دی ہے اور لشکر کو دعوت نبی نے دی ہے اور سارے لشکر کو لیکر نبی کریم جابر کے گھر تشریف لاتے ہیں ادھر جابر اپنی بیوی سے کہتے ہیں کہ میں نے تنہائی میں نبی کو دعوت دی اور دس آدمیوں سے کم ساتھ میں لے کر تشریف لانے کو کہا مگر حضور نے سارے لشکر کو مخاطب کرکے کہا کہ چلو جابر کے گھر دعوت ہے اور سارے لوگ آ بھی گئے،، حضرت جابر کی بیوی پوچھتی ہے کہ نبی پاک تشریف لائے کہ نہیں تو جابر نے کہا کہ نبی پاک بھی تشریف لائے ہیں تب بیوی کہتی ہے کہ اب گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے آپ نے نبی کو دعوت دی اور نبی نے لشکر کو دعوت دی ہے،، نبی کریم نے آٹے میں اپنا لعاب مبارک ڈال دیا اور گوشت میں بھی لعابِ مبارک ڈال دیا اور فرمایا کہ ہانڈی چولہے پر چڑھا دو اور روٹیاں پکانا بھی شروع کردو گوشت اور روٹی یعنی کھانا تیار ہوگیا پھر نبی نے فرمایا کہ اسے کپڑے سے ڈھک دو اور اس میں سے نکال نکال کر دسترخوان پر لے آؤ دسترخوان لگ گیا نبی کریم اور صحابہ کرام بیٹھ گئے فرمانِ نبی کے مطابق دسترخوان پر کھانا آنے لگا اٹھائیے احادیث کی متعدد کتابیں اور نبی کریم کے لعاب دہن کی برکت دیکھئیے اتنی برکت ہوئی کہ ایک ہزار آدمیوں نے کھانا کھایا نہ روٹی کم ہوئی نہ بوٹی کم ہوئی صحابہ کرام کی جماعت کھانا کھا کر شکم شیر ہوگئی (مشکوٰۃ شریف ص 524)
آئیے ایک دوسری دعوت کا بھی ذکر کیا جائے ایک مرتبہ سخاوت کے دھنی حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی ضیافت کی اور عرض کیا یارسول اللہ! میرے غریب خانے پر آپ تشریف لائیں اور دوستوں سمیت تشریف لائیں اور ماحضر تناول فرمائیں نبی پاک نے عثمان غنی کی دعوت منظور فرمائی اب آقائے دوعالم تشریف لے جارہے ہیں عثمان غنی کے گھر اور نبی کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں عثمان غنی اور نبی پاک کے قدموں کو گنتے جارہے ہیں کہ معلوم ہوسکے کہ میرے گھر تک آنے میں نبی کونین کے قدموں کی تعداد کتنی ہے جب حضرت عثمان کا یہ طریقہ نبی نے دیکھا تو پوچھا اے عثمان یہ کیا کررہے ہو کیوں میرے قدموں کی گنتی کررہے ہو،،
یہاں یہ بات بھی بتادینا ضروری ہے تاکہ آج دنیا بھر کے حکمرانوں کو ہوش آجائے کاروں کے قافلے کے جھرمٹ میں چلنے والوں دیکھو، غریبوں کے خون پسینے کی کمائی پر عیش و آرام کرنے والوں دیکھو، گارڈ آف آنر کی سلامی لینے دینے والے پوری دنیا کے حکمرانوں دیکھو غربت کو چھپانے کے لئے دیوار کی تعمیر کرنے والوں دیکھو، پھول اور مالا پہن کر اپنے استقبال پر ناز کرنے والوں دیکھو نبی کا استقبال ہورہا ہے اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نبی کریم کا استقبال کررہے ہیں کہتے ہیں کہ یارسول اللہ اس لئے آپ کے قدموں کی گنتی کررہا ہوں کہ میں نے پروگرام بنارکھا ہے آپ کے ہر ہر قدم پر ایک ایک غلام آزاد کرونگا میرے گھر تک تشریف لے جانے میں آپ کے جتنے بھی قدم پڑیں گے میں آپ کے استقبال میں اتنے غلام آزاد کروں گا جامع المعجزات میں اس واقعے کو بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عثمان غنی کے گھر تک پہنچ نے میں نبی پاک کے جتنے بھی قدم پڑے عثمان غنی نے نبی کی تعظیم و توقیر میں اتنے غلام آزاد کئے –
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سخاوت کے دھنی تھے اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سچے محب اور طالب تھے آپ کے عقد میں یکے بعد دیگرے سرکار دو عالم کی دو دو بیٹیاں بھی آئیں یہ شان ہے عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی-
آئیے تیسری دعوت کا بھی ذکر کریں جب عثمان غنی کے گھر دعوت ہو چکی تو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے گھر تشریف لائے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دیکھا کہ آپ کچھ مغموم ہیں چہرے سے کسی خاص خواہش کا اظہار ہورہا ہے حضرت فاطمہ نے پوچھا کہ اے میرے سرتاج آپ پریشان کیوں ہیں تو علی نے کہا کہ اے فاطمہ آج میرے بھائی عثمان نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی شاندار دعوت کی ہے اور حضور کے ایک ایک قدم کے بدلے انہوں نے غلام آزاد کیا ہے اے کاش! ہم بھی حضور کی ایسی دعوت کرتے لیکن ہمارے پاس اتنا مال و دولت نہیں ہے، ہمارے پاس اتنی وسعت نہیں ہے آخر ہم کیسے نبی پاک کی دعوت کریں تو حضرت فاطمہ نے کہا کہ اس میں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ جائیے اور رسول اللہ کی دعوت بول آئیے حضرت علی نے کہا کہ اتنا زبردست انتظام اور ہر قدم کے عوض غلام آزاد یہ کیسے ممکن ہے ہم کیسے یہ سب کچھ کریں گے تو فاطمہ نے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں، پریشان نہ ہوں انشاءاللہ سارا انتظام ہو جائے گا آپ جاکر حضور کی دعوت بول دیجیے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نبی کی خدمت میں حاضر ہوکر دعوت عرض کردی اور نبی نے دعوت قبول فرمالی اور اپنے اصحاب سمیت فاطمہ کے گھر تشریف لے چلے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نبی پاک کو اور اصحاب کرام کو بیٹھایا اور خود خلوت میں تشریف لے جاکر سجدہ ریز ہو گئیں –
آج بڑی بڑی شادیاں کرنے والوں، اس میں قسم قسم کے لوازمات کا انتظام کرنے والوں، امیری و غریبی کا دسترخوان الگ الگ کرنے والوں، اپنی شادیاں اور دعوت کی ویڈیو بنا کر یادگار بنانے والوں دیکھو یادگار کسے کہتے ہیں، ذکر کس کا ہوتا ہے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا الہ العالمین میں نے تیرے محبوب کی دعوت کی ہے اب تو ہماری لاج رکھ تیری بندی کا تجھی پر بھروسہ ہے اور یقین کامل ہے کہ تیری بندی کو شرمندہ نہیں ہونا پڑے گا پھر اس کے بعد چولہے پر ہانڈی چڑھائی اور پھر سجدے میں سر رکھ کر رورو کر عرض کیا اے اللہ میں نے چولہے پر ہانڈی چڑھادی ہے اب انتظام کرنا تیرا کام ہے تو اپنی بندی کی لاج رکھ لے ادھر رحمت کا دریا جوش میں آیا اور اللہ نے اس ہانڈی کو جنت کے کھانوں سے بھر دیا حضرت فاطمہ نے اس ہانڈی سے دسترخوان پر سب کے لیے کھانا بھیجنا شروع کیا نبی کریم نے اور اصحاب کرام نے کھانا کھایا لیکن اس ہانڈی میں کھانا کم نہیں ہوا اب کھانے کا ذائقہ ایسا تھا کہ سب کے سب حیرت میں مبتلا تھے کہ ایسا عظیم الشان ذائقہ کہ آج سے پہلے کبھی ایسے لذیذ کھانے کا اتفاق ہی نہیں ہوا تب نبی کریم نے فرمایا کہ جانتے ہو یہ کھانا کہاں سے آیا ہے،، یہ کھانا جنت سے آیا ہے یہ جنتی کھانا جب یہ سنا تو صحابہ کرام بہت خوش ہوئے –
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پھر خلوت میں گئیں اور سجدہ ریز ہوکر یہ دعا کرنے لگیں،،
اے اللہ! عثمان نے تیرے محبوب کے ایک ایک قدم کے بدلے ایک ایک غلام آزاد کیا ہے اے اللہ تیری بندی فاطمہ کے پاس اتنی استطاعت نہیں ہے رب العالمین جہاں تونے میری خاطر جنت سے کھانا بھیج کر میری لاج رکھی وہاں تو میری خاطر اپنے محبوب کے ان قدموں کے برابر جتنے قدم چل کر وہ میرے گھر تشریف لائے ہیں محبوب کی امت کے گنہگاروں کو جہنم سے آزاد کردے،،
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب اس دعا سے فارغ ہوئیں تو جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے اور سید الکونین سے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بشارت دے کر بھیجا ہے کہ آپ کی صاحبزادی کی دعا قبول فرماتے ہوئے آپ کے ہر قدم کے عوض ایک ہزار گنہگاروں کو جہنم سے آزاد کردیا گیا یہ بشارت سن کر نبی پاک اور اصحاب کرام بیحد خوش ہوئے –
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مقام و مرتبہ بڑا بلند ہے آپ کی خاطر اللہ نے جنت سے کھانا بھیجا اور کل بروز قیامت جب پل صراط سے فاطمہ کی سواری گذرے گی تو اعلان کردیا جائے گا کہ سارے مرد اپنی نگاہیں نیچی کرلیں خاتون جنت فاطمہ کی سواری گذرنے والی ہے،، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ شان ہے